مولانا سید محمد جابر جوراسی
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تقسیم ملک کے اسباب میں دوسروں کے حقوق کی پامالی اقتدار کی چاہت اور سب سے بڑھ کر ’’ تعصب کی گرم بازاری ہے ۔ جناح کے دو قومی نظریہ کے سب سے زیادہ تائیدی تھے سردار ولبھ بھائی پٹیل ورنہ مہاتماگاندھی قوموں کی بنیاد پر تقسیم ملک کے بنیادی مخالف تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ اگر مسلمانوں نے تحریک آزادی میںسرگرم حصہ نہ لیا ہوتا تو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ ء کو ملک آزاد نہ ہوتا۔
وہ حکومت میں مسلمانوں کو مناسب نمائندگی دینے کے قائل تھے بلکہ حکومت سازی کا اختیار مسلم لیگ کے جناح کو دینے تک آمادہ تھے تاکہ ملک متحد رہے تقسیم نہ ہو۔ جس دن ملک تقسیم نہ ہونے کے مسئلہ پر مولانا آزاد اور گاندھی جی کے درمیان بات ہوئی تھی اسی دن کے ذکر میں مولانا آزاد نے تحریر فرمایا ہے کہ :
’’ اسی روز بعد میں گاندھی جی لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملے۔۔۔ وہ اگلے روز بھی ان سے ملے اور مزید ایک بار ۲؍ اپریل کو ملے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے اپنی پہلی ملاقات سے واپسی کے فوراً بعد پٹیل گاندھی جی کے پاس آئے اور دو گھنٹے سے زیادہ دیر تک تنہائی میں ان سے باتیں کرتے رہے۔
مجھے پتہ نہیں کہ اس میٹنگ کے دوران کیا ہوا لیکن میں جب دوبارہ گاندھی جی سے ملا تو مجھے یہ دیکھ کر زندگی کا سب سے بڑا دھچکا لگا کہ اب وہ بدل چکے تھے وہ ابھی تک کھل کے تقسیم کے حق میں نہیں تھے مگر اب و ہ پہلی شدومد کے ساتھ اس کے خلاف نہیں بول رہے تھے۔
اس سے بھی حیران و افسردہ مجھے جس بات نے کیا وہ یہ تھی کہ وہ انہیں دلیلوں کو دہرا رہے تھے جن کا استعمال سردار پٹیل پہلے کرچکے تھے دو گھنٹے سے زیادہ میں نے ان سے بحث کی لیکن میں ان پر کوئی اثر نہ ڈال سکا۔ مایوس ہوکر میں نے کہا اگر آپ بھی ان خیالات کو اختیار کرچکے ہیں تو مجھے ہندوستان کو تباہی سے بچانے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ گاندھی جی نے میری اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن یہ کہا کہ وہ پہلے ہی یہ تجویز کرچکے ہیں ہمیں جناح سے حکومت بنانے اور کابینہ کے اراکین کو چننے کی درخواست کرنا چاہئے انہوں نے کہا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے بھی وہ اس کا ذکر کرچکے تھے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس خیال سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ میں جانتا تھا کہ ایسا ہوچکا ہے۔ جب گاندھی جی سے ان کی بات چیت کے اگلے روز میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اگر کانگریس گاندھی جی کی تجویز مان لے تو اب بھی تقسیم سے بچا جاسکتا ہے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اس سے اتفاق تھا کہ کانگریس کی طرف سے اس قسم کی پیشکش مسلم لیگ کو قائل کردے گی اور شائد جناح کا اعتماد بھی حاصل ہوجائے بدقسمتی سے یہ بات آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل دونوں نے شدت کے ساتھ اس کی مخالفت کی در اصل انہوں نے گاندھی جی کو تجویز واپس لینے پر مجبور کردیا۔ (آزادیٔ ہند صفحہ ۲۴۹)
بقول مولانا آزاد: ’’ ہم سے دوسری بڑی غلطی اس وقت ہوئی جب لارڈ دیوبل نے یہ تجویز کیا کہ امور داخلہ کا محکمہ مسلم لیگ کو دے دیا جائے یہ ہمارے کسی ناقابل عبور مشکل کا سبب نہ بنتا مگر چونکہ پٹیل نے اس محکمہ کو اپنےپاس رکھنےپر اصرار کیا اس لئے ہم نے خود مالیات کا محکمہ مسلم لیگ کو دے دیا۔ ہماری موجودہ مشکلات کی وجہ یہی تھی۔ ( آزادیٔ ہند صفحہ ۲۴۷)
نہرو اور پٹیل کے سلسلہ میں اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا ابو الکلام آزاد نے مستقبل کے ان خطرات کی نشاندہی کردی تھی آج ہمیں جن کا سامنا ہے۔
انہوں نے تحریر فرمایا : ’’ میں نے اپنے دونوں ساتھیوں کو حتی الامکان یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی آخری قدم نہ اٹھائیں مگر میں نے دیکھا کہ سردار پٹیل تقسیم کے اس حد تک حامی تھے کہ کسی اور نقطۂ نظر کو سننے کے لئے مشکل سے تیار ہوتے تھے میں نے دو گھنٹہ سے زیادہ ان سے بحث کی میں نے یہ نشاندہی کی کہ اگر ہم نے تقسیم کو قبول کرلیا تو ہم ہندوستان کے لئے ایک مستقل مسئلہ پیدا کردیں گے۔ تقسیم فرقہ وارانہ مسئلہ کو حل نہیںکرے گی۔ بلکہ اسے ملک کی ایک مستقل خصوصیت بنادے گی۔ ( آزادی ہند صفحہ ۲۴۵)
مولانا آزاد مرحوم کے اس خدشہ کو آج ہم من و عن اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کل کی تنگ نظری اور عدم وسعت قلب نے جو آفت ڈھائی ہے اس کا مشاہدہ آج ہم اپنی آنکھوں سے کررہے ہیں۔ آج بھی ہم وسعت قلب کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نہیں۔
آزادیٔ ملک کی ۷۳ویں سالگرہ مناتے وقت ہمیں ماضی پر بھی نظر ڈالنا ہے اور حال و مستقبل کے بارے میں بھی سوچنا ہے کل اقتدار میں حصہ داری میں بخل ہوا تو ملک تقسیم ہوگیا۔ جن وطن پرستوں نے اس تقسیم کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنے وطن ہی میں رہنا پسند کیا۔ آج انہیں طنز و تشنیع کا سامنا ہے کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مغربی پاکستان کی اقلیتی بھٹو حکومت نے مشرقی پاکستان کی اکثیریتی مجیب الرحمان حکومت کو اس کا حق نہیں دیا تو پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے اور بنگلہ دیش بن گیا۔ ہم نے تقسیم کے درد کو سہا تو پاکستان کو بھی تقسیم کا داغ دیکھنا پڑا لہٰذا اچھے مستقبل کے لئے اگر اپنے جذبات نفرت کو لگا م دے دی جائے تو بہتر ہوگا۔
آج پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی وہ نہیں جو ہونا چاہئے۔ کیوں؟ یہ حکومتوں کو سوچنا ہے ۔ کس شہ پر نفرتیں ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہیں۔ یہ گزشتہ دنوں ’’ ہجومی تشدد‘‘ کا حوصلہ کن محرکات کی وجہ سے بلند ہوگیا جس کا ۹۰ فیصد اقلیت شکار ہورہی ہے۔
ملک کے اندر ایک سو تیس کروڑ آبادی ایک ناقابل رد حقیقت ہے لہٰذا اس آبادی کو مطمئن رکھنے کی سخت ضرورت ہے نہ یہ کہ مسائل انہیں اندیشوں کے گرداب کا شکار بنادیں تحریک آزادی کی کامیابی گواہ ہے کہ قوموں کا اتحاد ملک کی مضبوطی کا ضامن اور ان کا اختلاف و افتراق ملک کی کمزوری کا سبب ہے۔
آئے ہر وہ کام کریں جو ملک کو مضبوط و طاقتور بنائے اور ہر اس کام سے بچیں جو ملک کو کمزور کرے۔ وطن پرستی کا ایک قوی پہلو اہل وطن سے بلا تفریق محبت بھی ہے اور اس دولت کو ضائع نہ ہونا چاہئے ۔